بلوچوں کا درویش رہنما بابا خیر بخش مری
تحریر:بیبرگ بلوچ
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں چند ایسے شخصیات نے جنم لیا ہے جو زاتی خواہشات اور منفی روایات سے بالاتر ہوکر فکر، عمل اور قربانی کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے محض ایک عظیم مقصد کیلئِے آخری سانس تک لڑتے رہے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ اپنی عمل سے سماجی زندگی کی راہیں شناس کرکے نظریات و افکار اور خیالات سے اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہیں اور ایسے عظیم لوگ جو کسی عظیم مقصد کیلئِے قربان ہوں تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔
ایسے ہی مزاج کے ایک عظیم کردار خیربخش مری 28 فروری 1929 کو مہر اللّٰہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے علاقے کاہاں میں پیدا ہوئِے۔ نواب خیربخش مری نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں کاہان میں حاصل کی، اس کے بعد گرائمر سکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ آپ شیرخواری کے عمر میں والدہ اور بچپن ہی میں والد کے سائِے سے محروم ہوگئِے، والد کی وفات کے بعد وہ مری قبیلے کے سردار نامزد ہوئِے مگر کمسن اور زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے ان کی چچا دودا خان مری کو کچھ مدت کے لئِے نگران سردار مقرر کیا گیا۔ پچاس کی دہائی میں ایچی سن کالج سے اپنی مکمل کرنے کے بعد بھی نواب خیر بخش مری سیاست سے بےنیاز تھا۔
سردار شیر باز خان مزاری جو کالج کے زمانے میں نواب خیر بخش مری کے ساتھ ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر تھا کے مطابق خیر بخش مری صاحب انتہائی تنہا پسند تھے اور وہ اکثر امریکن فلمیں دیکھنے سنیما جایا کرتے تھے، چونکہ امریکن فلموں میں اکثر ظلم اور جبر پر مبنی مناظر دیکھائِے جاتے تھے اور باوردی جہاں جاتے لوگوں کا مال و متاع لوٹتے، اور معصوم لوگوں کا بےدردی سے قتل عام کرتے جن کی وجہ سے نواب مری کی زہنی کیفیت میں تبدیلی آئی۔
کالج سے فراغت کے کچھ عرصے بعد خیر بخش جب سن بلوغت سے نکل کر ایک مارکسٹ بن گئِے تو ان کے اندر غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی، وہ خیر بخش مری جو پہلے اچھے سے اچھے کپڑے زیب تن کیا کرتا تھا اب کے بار ان کے بدن کے کپڑے پھٹے ہوئِے تھے جن پر جگہ جگہ پیوند لگی ہوئی تھی اور وہ تمام لوگ جو کہ کالج کے زمانے میں انہیں جانتے تھے وہ ان کی اس حالت کو قبول کرنے کیلئِے تیار نہیں تھے۔ ان دنوں نواب خیر بخش مری کی فکر و خیالات تبدیل ہوچکی تھی اور اس کا کوشش محض یہ تھا کہ فرسودہ خیالات کے حامل بلوچ کو کس طرح اور کن نظریات کے تحت منظم اور متحد کیا جائِے۔
بابا خیر بخش مری ہر بات کو دھیان سے سنتے تھے مگر بہت ہی کم باتوں پر گفتگو کرتے تھے اگر کسی مسئلے پر بحث کی ضرورت محسوس کرتے تو اس پر کھل کر اپنی خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
امریکی صحافی سلیگ ایس،ہیریسن اپنی کتا ب میں خیر بخش مری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے زیادہ شائستہ، وجیہہ اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا، اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ اپنے نوابانہ عظمت ہمیشہ قربان کرتے آئیں ہیں اور اس نے اپنی نوابی پس پشت ڈال کر سیاسی نظریات کو اہمیت دی۔
بابا خیر بخش مری نے ہمیشہ خود کو جمالیات اور زلفوں کی اسیری سے دور رکھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ لزتیں ضرورت بن کر انسان کی کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں اس لئِے انہوں نے اپنی تمام تر زندگی بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کی آزادی کے راہ میں قربان کردی، یہی وہ وجہ تھا جس نے خیر بخش مری کو بابا خیر بخش مری بنا کر ہمیشہ کیلئِے امر کردیا۔
کالج سے فراغت کے بعد خیر بخش مری اکثر کوئٹہ اور سبی میں قیام کیا کرتے تھے وہ جب سبی میں ہوتے تو مری قبائل کے افراد سینکڑوں کی تعداد میں آکر اپنے مسائل آپ کے سامنے پیش کرتے۔ نواب مری گول دائرہ بناکر ان کے مسائل سنتے ان پر بحث کرتے اور وہ چاہتے تھے کہ مقدموں کی باہمی رضا مندی سے مسائل کا مناسب حل تلاش کریں انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ قبیلے کے افراد پر اپنا شخصی فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بابا خیربخش مری ماضی کی سرداری نظام کے ظالمانہ روایات جیسے کہ سرداری ٹیکس، نجی عقوبت خانے، سزائیں دینا اور جرمانے کو انتہائی ناپسند کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مری قبائل میں صدیوں سے رائج فرسودہ روایات جیسے کہ سردار کے آگے جھک کر اس کے پیر پکڑنا،سردار کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چومنا، سیاکاری کے معاملے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کرنا ان تمام روایات کو قیبلے کا تذلیل سمجھ کر بابا خیر بخش مری نے رد کردیا کونکہ وہ مری قبائل کو سر جھکا کر نہیں بلکہ سر اٹھا کر دیکھنا چاہتا تھا۔
آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1955 میں اس وقت کیا جب قیام ون یونٹ کے فوری بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئِے اور اس نے سبی سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئِے مگر اس زمانے میں آپ نے اپنی سْیاسی منزل کا تعین نہیں کیا تھا۔سن ۱۹۵۸ میں بابا خیر بخش اور شیر محمد مری نے خان قلات احمد یار خان کا بلوچ سرزمین پر قبضہ سے مطالق ضروری پیغام لیکر سردار عطاء اللّٰہ مینگل سے ملنے وڈھ چلے گئِے اور یہی سے بابا خیر بخش مری اور سردار عطاء اللّٰہ مینگل کے آپس میں تعلقات کا آغاز ہوا۔
6 اکتوبر 1958 کو پاکستانی فوج بلوچستان پر حملہ آور ہوکر بلوچستان کے مرکز قلات میں داخل ہوکر فوج کشی کی اور خان قلات سمیت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سْیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے زندانوں میں قید کردیا۔بلوچ سرزمین پر قبضہ، بلوچ نواجوانوں کی قتل عام اور بلوچ برزگوں کی گرفتاریوں کا خیر بخش مری پر گہرا اثر ہوا۔ آپ نے بلوچ سرزمین پر فوج کشی،بلوچ مزاحمتکار بابو نوروز خان کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس کتاب قران پاک کی بےحرمتی، نوجوانوں کو پھانسی کے تختہ دار پر جھولتے ہوئی اور بلوچ سرزمین کو جلتے ہوئِے بھی دیکھا۔
بابا خیر بخش مری نے بلوچ جدوجہد کو قبائل سے نکال کر قومی اور سیاسی رخ دینے کیلئِے بلوچستان کی حالات اور سیاست پر نظر رکھتے ہوئِے ماضی کے سیاسی عمل کو سامنے رکھ کر مستقبل کی سیاست کا تعین کرنے کیلئِے بلوچ قومی تحریک کے بانی عبدالعزیز کرد، قادر بخش نظامانی، گل خان نصیر اور یوسف عزیز مگسی کی سیاسی سرگرمیوں، تنظیمی طریقہ کاری اور ان کی سیاسی عکمت عملی پر غور و فکر کیا ۔آپ کو سیاست میں قدم رکھنے کیلئِے کمٹڈ سیاسی ساتھیوں کی تلاش تھی ان کے خیال میں میر غوث بخش بیزنجو جس نے بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی سخت الفاظ میں مخالفت کی تھی، عبدالکریم خان احمد زی جس نے بلوچستان پر قبضے کے خلاف پہلی بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیم بلوچ نیشنل لبریشن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تھی، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطا اللّٰہ مینگل جو قبائلی حیثیت رکھتے تھے ان کے خیال میں بلوچستان کی آزادی کیلئے ان کی بہتر ساتھی ثابت ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے خیر بخش مری نے ان کو اعتماد میں لیا اور سب نے ملکر بلوچ سرزمین پر قبضے کے خلاف زیرزمین کام کرنے کیلئِے مقاصد کے اصول تک جدوجہد کرنے کیلئِے عہد کرکے “آجوئی گل” کے نام سے خفیہ تنظیم کی بنیاد رکھی، اس کے اگلے روز ہی غوث بخش بیزنجو نے آجوئی گل سے لاتعلقی کا اظہار کیا مگر خیربخش مری آخری سانس تک اپنے عہد پر قائم رہا۔
۱۹۶۲میں ایوب خان کی مارشل لا اٹھنے کے بعد جب انتجابات منعقد ہوئِے تو بابا خیر بخش مری نے حصہ لینے سے انکار کیا تو پھر اس کو منانے کے خاطر سردار مینگل، نواب بگٹی اور میر بیزنجو نواب خیر بخش مری کو منانے کے خاطر تین دنوں تک میٹنگیں کرتے ریے بلاآخر وہ اسے انتجابات میں حصہ لینے کیلئِے آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نواب خیر بخش مری کوئٹہ ڈویژن سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئِے اور جون 1962 میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے جذباتی تقریر کرکے بلوچستان پر قبضہ، فوج کشی، وسائل کی لوٹ مار اور ظلم و جبر کا پردہ چاک کرکے حکمرانوں کو للکارتے ہوئِے کہا کہ تمارا یہ خیال ہے کہ بلوچستان میں بغاوت کی جو آگ بڑھک اٹھی ہے تم اس کو ختم کردوگے تم ایسے خواب دیکھنا بند کردو کیونکہ ہتھیار ہماری عزت کا محافظ ہے جس کو چین کر تم ہمارے لوگوں پر گولیاں اور بمب برسانا چاہتے ہو جبکہ ہم اپنے سرزمین کا تحفظ کرکے تمارا غلامی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ صدر ایوب خان کا کوئٹہ آنے کے موقع پر ایک روز قبل 5 اگست 1962 میں بلوچ قیادت نے جلسہ عام کا اہتمام کرکے لوگوں کی ایک بہت بڑی ہجوم میں بلوچستان میں ہونے والے ریاستی ظلم و جبر کے خلاف سخت تقریریں کیں، جس کے درعمل میں 6 اگست 1962 کو صدر ایوب خان نے مسلح افواج کے سخت پہرے میں جلسہ سے خطاب کرکے بلوچ قیادت کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز زبان استمال کرتے ہوئِے بلوچ قیادت کو غدار اور ملک دشمن لقابات سے نواز کر دھمکی دی جس کے درعمل میں 7 اگست 1962 کو بلوچ قیادت نے کوئٹہ میں اپنا جوابی جلسہ منعقد کرکے ایوب خان کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ باباخیر بخش مری نے اس جلسہ سے بلوچ میں خطاب کیا تھا۔
اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے بلوچ قیادت نے 16 اگست 1962 کو لیاری میں جلسہ عام کا اہتمام کرکے ایوب خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناکر بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم کے خلاف تقریریں کیں جس کا حلومت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور 17 اگست 1962 کو خیر بخش مری سمیت بلوچ قیادت کو گرفتار کرکے سزائیں دی گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد بابا خیر بخش مری اور میر غوث بخش بیزنجو بنگالی قوم پرست سیاسی قیادت کو بلوچستان میں ہونے والے ریاستی زیادتیوں کے مطالق اگاہ کرنے کیلئِے ڈھاکہ چلے گئِے۔
بابا خیر بخش مری وہ واحد بلوچ سردار تھے جو بلوچستان سے حکومت کو وسائل نکالنے کے راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہے۔ ۱۹۶۹میں آپ نے پاکستان کی ترقی پسند سیکولر سْیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی نیپ میں شامل ہوکر پہلی دفعہ کسی سْیاسی جماعت کا رکن بن گئِے۔ اس نے بلوچستان میں نیپ کو فحال کر کے بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان بہتریں تعلقات قائم کیا۔ بابا خیر بخش مری کے دوست پروفیسر عبداللّٰہ جان جمالدینی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئِے کہتے ہیں کہ خیر بخش مری جب انگریزی فلم دیکھنے سینما جاتے تو بعض دفعہ ہمیں بھی ساتھ لے جاتے، فلم شروع ہونے سے قبل جب پاکستانی پرچم لہرایا جاتا تو اس کے احترام میں سارے لوگ کھڑے ہوتے مگر خیر بخش اپنے نشست پر بیٹھے رہتے۔
خیر بخش کو اپنی سیاسی بصارت و کمٹمنٹ، دوراندیشی اور پُرکشش تقریروں کی وجہ سے عوام میں زبردست مقبولیت حاصل تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1970 کے انتخابات میں وہ صوبائی اور قومی دونوں حلقوں سے بھاری ووٹ لیکر کامیاب ہوئِے تھے۔ خیر بخش مری جب پارٹی دفتر جاتے تو نوجوان طلبا ان کے پاس چلے جاتے اور وہ ان نواجوانوں کو سیاسی تربیت دینے کی خاطر اسٹڈی سرکل لگاتے تھے۔ اس کی ان سرگرمیوں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کے پیچھے ایک عظیم مقصد تھا۔اس زمانے میں خیر بخش مری بہت متحرک تھے، کہتے ہیں کہ ان کی سینے پر ایک طرف لینن تو دوسری طرف ماؤ کا بیج لگا ہوتا تھا۔ یکم مئی 1972 میں سردار عطا اللّٰہ مینگل کی قیادت میں جب بلوچستان میں نیپ اور جعمیت مخلوط حکومت قائم ہوئی تو خیر بخش مری بہت ناخوش تھے اور انہوں نے وزارت سے زیادہ پارٹی کی صدارت کو ترجیح دی اور 1973 کو جب آئین کا مسودہ جب قومی اسمبلی میں پاس ہوا تو نے قومی حاکمیت مسئلے پر آئین پر دستخط نہیں کی۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے قومی اور جہموری حقوق سے محروم کرنے کی کوششوں کا اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلوچستان میں فوجی تعیناتی، ٹکا اور بھٹو کی آمرانہ پایسیوں کے خلاف مری بلوچوں نے زیرزمین مسلح تنظیم بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کے تحت منظم جنگ لڑی۔
31 جولائی 1973 کو موجودہ نواب نوروز خان اسٹیڈیم میں پی این اے کے احتجاجی جلسے سے خیر بخش مری نے انتہائی سخت الفاظ میں تقریر کرتے ہوئِے کہا کہ بلوچستان ایک علیحدہ ریاست ہے جس پر پاکستان نے قبضہ کرکے بلوچوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور پاکستان کو تنبہہ کیا کہ وہ بلوچوں کی سرزمین کو چھوڑ کر بلوچوں کی نسل کشی سے باز آجائِے ورنہ ہم اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر محبور یوں گے۔کہتے ہیں کہ ان کی یہ تقریر اتنی سخت تھی کہ پی این اے کے مولوی تقریر کے دوران بار بار کھڑے ہوکر اسلام اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر گریٹر بلوچستان اور آزاد پختونستان کے سنگین الزامات لگاکر قیادت سمیت ہزاروں کارکنوں اور طلبا کو گرفتار کرکے ان کو غدار قرار دے کر حیدرآباد جیل میں بند کردیا۔.
خیر بخش مری پر سنگین الزامات لگاکر 4 سالوں تک قید کیاگیا، جیل میں ریاست کے ساتھ ساتھ اپنے قیادت بلخصوص پارٹی کی سربراہ ولی خان کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا کرتا رہا اور میر غوث بخش بیزنجو کی جانب سے خیر بخش مری کو مزاحمتی عمل کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور یہی سے دونوں کے درمیان اختلافات کی ابتدا ہوئی مگر خیر بخش مری نے اپنے مزاحمتی عمل کا دفاع کرتے ہوئِے کیا کہ دوشمن تو دوشمن ہوتا ہے اس کے ساتھ ہر محاز پر لڑنا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے حیدرآباد سینٹرل جیل میں قید نیپ کی قیادت سوئِے خیر بخش مری کے باقی سب کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔حکومتی اداروں کی جانب سے خیر بخش مری کو مارنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا نیپ قیادت کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس وقت تک رہائی سے انکار کیا کہ جب تک خیر بخش مری کو رہا نہیں کیا جاتا۔
جیل سے رہائی کے بعد نواب خیر بخش مری اور میر بیزنجو ایک ساتھ سفر کرکے کوئٹہ آئِے تو اس وقت تک عوام ان کے اختلافات سے لاعلم تھے میر بیزنجو اور گل خان نصیر کو ان کے حامی جلوس کی شکل میں مینگل ہاوس لے گئِے جبکہ بلوچ طلبا اور بی ایس او کے کارکنوں نے مزاحمتی نعروں پرجوش انداز میں نواب خیر بخش مری اور شیر محمد مری استقبال کیا اور کوئٹہ کے اہم شاہراؤں پر گشت کرتے ہوئِے بی ایس او کے دفتر کے سامنے بڑی تعداد میں جمع ہوگئِے جہاں نواب خیر بخش نے بلوچستان سے مطالق اہم خطاب کیا اس کے بعد کئی دنوں تک سیاسی رہنما اور کارکن خیر بخش مری سے ملنے مری ہاوس جاتے رہیں۔ حیدرآباد جیل سے رہائی کے بعد خیر بخش مری کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئِے دراصل وہ پاکستانی سیاست سے مایوس ہوچکے تھے اس لئِے پاکستان کی بے اصول سیاست سے دستبردار ہوگئِے، جس مقدس مقصد کے خاطر وہ ہر طرح کے ظلم و جبر قید و بند برداشت کرچکے تھے اس منزل تک پہنچنے کیلئِے اس نے بلوچ نوجوانوں کو چنا۔ وہ بلوچ سرزمین کو آزاد کرنے کیلئِے پُرعزم تھا اس مقصد کے خاطر اس نے عبدالستار روڑ پر واقعہ فیصل ہاسٹل میں بلوچ طلبا کو قومی و سْیاسی تربیت دینے کے خاطر اسٹڈی سرکل دینے لگے۔ فروری 1978 کو عطا اللّٰہ مینگل نے مینگل ہاوس کوئٹہ میں کالعدم نیپ کے کارکنوں کا کنونشن طلب کیا تو خیر بخش مری نے انتہائی جزباتی الفاظ میں تقریر کرتے ہوئِے اعلان کیا کہ وہ آخری دم تک بلوچ سرزمین کو آزاد کرنے کیلئِے لڑتے رہیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو خود بندوک اٹھا کر بلوچستان کی پہاڑوں کا رخ کریں گے۔
خیر بخش مری وہ بلوچ رہنما تھے جو کہتے اس پر ضرور عمل کرتے تھے۔ اس نے بلوچ نیشنلزم کو سائنسی فکر دیکر فکر کو عمل میں تبدیل کردیا۔ وہ ایک با اصول سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گوریلا کمانڈر بھی تھے۔آپ بلوچ قوم بلوچ اور سرزمین کے لئِے کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرچکے تھے اب وہ صرف بلوچ وطن کی بات کرنے لگے تھے اور ایوان قلات میں پاس کی گئی 1947 کی قراردادوں اور نوری نصیر خان کی بلوچستان کو اہمت دینے لگے تھے۔ وہ بلوچ قومی بقا کی تحریک کو شہید خان محراب خان کی جدوجہد اور قربانی سے جوڑتے تھے۔ ریاست نے 1973 کی چار سالہ جنگ کے تجربہ کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرکے بلوچ قوم پرست سْیاسی جماعتوں کو اقتدار کا فریب دیکر بلوچستان میں جگہ جگہ ایف سی کی چیک پوسٹیں قائم کرکے ایک بڑی تعداد میں فوجی چھاؤنیاں تعمیر کیں اور ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچوں کو اپنے خفیہ ایجنسیوں میں ملوث کرکے بلوچ تحریک آزادی کے خلاف استمال کیں۔
۱۹۷۰کی دہائی میں لڑی جانے والی جنگ اور مری علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کی وجہ سے مری قبائل کی ایک بہت بڑی تعداد نے افغانستان ہجرت کی اور اس دوران خیر بخش مری لندن اور بعد میں فرانس چلے گئِے تاکہ بلوچ تحریک آزادی کیلئِے راہیں تلاش کرسکیں۔۱۹۸۲ میں خیر بخش مری افغانستان چلے گئِے۔ وہ اپنے قبیلے اور تنظیمی ساتھیوں سمیت بارہ سالوں تک اپنے مادر وطن سے دور افغانستان میں رہے جہاں شیر محمد مری اور میر ہزار خان مری کی خیر بخش مری کے ساتھ اختلافات نے جنم لیا اور بی پی ایل ایف کا تنظمی ڈانچہ منتشر ہوکر لندن گروپ نے بھی خیر بخش مری کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ان بدلتے حالات نے اس کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ اس نے تنظیمی کام کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئِے تنظیم کاری شروع کردی مگر افغانستان کے خراب سْیاسی حالات نے اس کا ساتھ نہیں دیا، صورتحال سخت خراب ہونے کی وجہ سے تنظیمی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوگیا اور اسی دوران شیر محمد مری اور ہزار خان مری کی سربراہی میں تنظیم کا ایک الگ دھڑا بن گیا مگر خیر بخش مری مایوس نہیں ہوئِے اور حالات کا گہرائی سے جائزہ لیکر اپنے کام کو حالات کے ساتھ جاری رکھا۔ ان سخت حالات میں پاکستانی خفیہ ایجنسی بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئِے خوب سرگرم ہوئِے اور ایک منصوبے کے تحت مری قبائل کے چند افراد کے زریعے خیر بخش مری کو مارنے کے ارادے سے ان کے کیمپ بیجا مگر افغان خفیہ اداروں اور بلوچ تحریک کے جانبازوں نے بر وقت کاروئی کرکے ریاستی سازش کو ناکام بنادیا۔
سویت یونین کی افواج کی افغانستان سے نکلنے کے کچھ عرصے بعد جب افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللّٰہ کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا تھا تو اس نے خراب حالات کی وجہ سے خیر بخش مری کو پیخام بھیج کر اس حوالے سے خبرداد کردیا کہ آپ کسی طرح اپنے وطن بلوچستان چلے جائیں کیوں اب یہاں آپ اور بلوچ تحریک خطرے سے دوچار ہوں گے مگر خیر بخش مری نے انکارکرتے ہوئِے کہا کہ جب ہم سخت مصیبت میں تھے تب آپ نے ہمارا ساتھ دیکر ہر ممکن تعاون کی لیکن اب جب آپ مصیبت میں ہیں تو پھر ہم آپ کو چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں۔ جب ٖڈاکٹر نجیب اللّٰہ کی حکومت کا خاتمہ ہوکر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو طالبان نے آئی ایس آئی کی سرپرستی میں خیر بخش مری کو قبائل سمیت افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور کابل میں ان کی رہائش گاہ جاکر ان سے کہا کہ تماری جسموں کے کپڑے اور پیروں کے جوتوں کے سوا افغانستان میں تمارا کچھ بھی نہیں اور جتنا جلدی ہوسکے یہاں سے نکل جاؤ۔
ان خراب حالات میں خیر بخش مری اور ان کے قبیلے کا افغانستان میں رہنا کوئی بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا اس کی زندگی شدید خطرے میں تھی ان حالات کو لیکر بلوچ عوام سخت تشوش میں پڑھ گئی۔ نواب اکبر خان بگٹی نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئِے بلوچ قوم پرست جماعتوں اور بی ایس او کو متحد کرکے بابا خیر بخش مری اور ان کے قبائل کی بحفاظت واپسی کیلئِے بلوچستان میں احتجاجی ریلیاں نکال کر حکومت پر دباؤ ڈالا، آخرکار حکومت پاکستان نے وزرا اور بلوچ سیاستدانوں پر مشتمل جرگہ تشکیل دیکر قابل روانہ کردیا۔ کہتے ہیں کہ 13 سالوں تک پاکستان کے مختلف حکومتوں نے خیر بخش مری کو واپس پاکستانی لانے کی ہر ممکن کوششیں کیں مگر ہر حکومت اس کو واپس لانے میں ناکام ہوئی، مگر اب کی بار بلوچوں پر مشتمل جرگہ نے اسے وطن واپس لانے کیلئِے امادہ کیا تھا۔
جس دن خیر بخش مری کا اپنے قبائل سمیت وطن واپسی طے تھی اس دن ایک دفعہ پھر طالبان آیا اور ان کو ایک عدد کپڑے اور جوتے کے باقی سامان اپنے ساتھ لے جانے سے سخت منع کیا۔ طالباں نے خیر بخش مری کے سات گاڑیوں سمیت سارا سامان اپنے قبضے میں لے لیا۔ مری قبائل کابل سے سوائِے چند لڑاکا مُرغے اور استمال کےکچھ کپڑے اور جوتے لے جانے میں کامیاب ہوئِے مگر راستے میں جلال آباد کے مقام پر افغانیوں نے مری قافلے پر حملہ کرکے ان کے سارے سامان لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئِے۔
جون ۱۹۹۲ کو بابا خیر بخش مری ایک پاکستانی طیارے میں کابل سے بلوچستان کیلئِے روانہ ہوئِے، جب کوئٹہ ائیر پورٹ پر زبردست ہجوم اور نظم و نسق کی وجہ سے ان کا طیارہ اسلام آباد چلا گیا تو خیر بخش مری نے وہاں قیام کرنے سے سخت انکار کیا آخر کا اسے اس بات پر امادہ کیاگیا کہ اسلام آباد میں موجود بلوچستان ہاوس بلوچوں کا ہے جس پر وہ راضی ہوئِے اور ایک شب وہاں قیام کرکے اگلی روز اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچا، ان کا طیارہ جب کوئٹہ پہچا تو وہاں پہلے سے موجود ہرازوں کے تعداد میں بلوچ عوام نے بلوچستان اور خیر بخش مری زندہ آباد کے نعروں سے اس کا پُرجوش استقبال کیا۔ بلوچ دانشور زرک میر اپنی “کتاب شال کی یادیں” میں لکھتے ہیں کہ نوجوان اس قدر جزباتی ہوگئِے تھے کہ ائیر پورٹ کی چھت پر چڑھ کر پُرجوش انداز میں آزادی کے نعرے لگا کر پاکستانی پرچم اتار کر اس کی جگہ بلوچستان کا پرچم لہرایا گیا تھا
زرک میر اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ اس دن خیر بخش مری نہیں آرہے تھے بلکہ ایسا لگ رہا تھا گویا کوئی پیغمبر آرہے ہیں۔
خیر بخش کے استقبال کیلئِے گویا کون نہیں آیا تھا بلکہ سب آئِے تھے وہ لوگ بھی جو کہ سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے، گویا سارا بلوچستان اپنے محبوب لیڈر کو دیکھنے کوئٹہ آئِے تھے اور لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے پورہ کوئٹہ شہر جام ہوگیا تھا کوئٹہ میں ٹریفک اور معمولات زندگی شدید متاثر ہوگئِے تھے۔آپ افغانستان سے جب واپس وطن آئِے تو ان پر تنظیمی کام کا بوجھ کافی بڑھ گیا تھا وہ اپنا سارا وقت سیاسی سرگرمیوں میں دینے لگے تھے۔بلوچ قوم کی امیدوں پر اترنے کے خاطر اس نے منصوبہ بندی کرتے ہوئِے مری قبائل کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیلا دیا تاکہ وہ بلوچ سرزمین سے واقف ہوکر دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ قربت پیدا کرنے کے ساتھ مستقبل میں بلوچ قومی تحریک پر مثبت اثرات مرتب کرسکیں۔
خیر بخش مری نے بلوچ قومی تحریک کو نئی جہت دینے کیلئِے نواجوانوں کو بہت ترجیح دی۔ بلوچ نوجوانوں کو بلوچ قومی تحریک کے نشیب و فراز، ماضی،حال اور مستقبل کی سیاسی و نظریاتی امور پر اظہار خیال کرکے بلوچ نواجْوانوں کو “حق توار” سرکل کے نام پر ایک بہتریں نشت فرائم کیا۔ نے سریاب میں ایک اسقبالیہ پروگرام میں خطاب کرتے ہوئِے ایک پشتون سیاسی جماعت کی جانب سے بلوچستان کے تقسیم سے مطالق بیان کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئِے کہا کہ پشتون ہمارا بھائی نہیں بلکہ ہمسایہ ہے اور ہمسائِے کی طرح رہے۔
گیارہ جنوری 2000 کو ایک جھوٹے سازش کے تحت خیر بخش مری کو چیف جسٹس آف بلوچستان احمد نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر 13 جنوری 2000 کو انہیں دس دنوں کی ریمانڈ پر سی آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔ اپنی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئِے خیر بخش مری نے کہا کہ مجھے برادر کُشی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے دشمن ریاست بلوچ قوم کو منتشر کرکے ان کا وسائل لوٹنا چاہتا ہے، اس نے مزید کہا کہ جیل میں مجھ سے محض جلاوطنی کے ایام میں افغانستان میں ان کی سرگرمیوں، افغان حکومت کے ساتھ رابطوں کی نوعیت اور وہاں ہجرت کرنے کے مطالق پوچھا جاریا ہے۔جبکہ اب تک احمد نواز قتل کیس سے مطالق ایک بھی سوال نہیں بوچھا گیا۔ آپ کو 18 ماہ تک قید میں رکھ کر مری علاقوں سے تیل و گیس اور دیگر معدنیات نکانے میں تعاون کیلئِے سخت دباؤ ڈالا گیا۔ قید کے دوران انہیں مسلسل ذہنی طور ہر ٹارچر کیاگیا،کبھی چھت کے راستے اس کی کمرے کے اندر پانی چھوڑا گیا تو کبھی اس کے گھر سے آیا کھانا روک دیا گیا۔ بلاآخر دس لاکھ روپے کے ضمانت پر انہیں رہا کردیا گیا۔ قید سے رہا ہوتے ہی حکومت نے خیر بخش کی بیرون ملک جانے پر مکمل پابندی لگا دیا۔ تنظیم اور ساتھیوں کے فیصلے کے تحت وہ اپنے وطن اور لوگوں سے سینکڑوں کلو میٹر دور کراچی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کیلئِے تیار ہوگئِے۔
چھ جون 2014 کو ان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوئی، بیرون ملک علاج کیلئِے لے جانے میں پاکستان نے پابندی لگا دیا تھا۔دس جون 2014 کو بابا خیر بخش مری کے وفات کی خبر نے پورے بلوچ قوم کو درد و غم میں مبتلا کردیا۔ ریاست نے ان کی لاش کو طویل میں لے کر کوہلو منتقل کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کی جنازے میں کم لوگ شرکت کرسکیں مگر آزادی پسند تنظیموں اور بلوچ عوام نے ریاستی اداروں کو زمین بوس کرکے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنادیا، بلوچ عوام کی ہزاروں کے مجمعے نے اپنی محبوب قائد کے جنازے کو آزادی بلوچستان کے نعروں اور آزاد بلوچستان کے پرچم تلے نیوکاہان میں شہداء بلوچستان کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔
بابا خیر بخش مری ایک ایسے انسان تھے جوکہ وطن سے محبت کے جزبے سے سیراب تھے اور ساتھ ہی ایک بہٹ بڑا گوریلا جنگجو بھی تھے۔وہ نواب بھی تھے درویش ملنگ بھی تھے۔ ایک بہت بڑے طاقت کا مالک مگر پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو، وہ سخت سے سخت بات بھی انتہائی نرم لہجے میں کرتے تھے وہ انسان دوست تو تھے لیکن دشمن سے سخت نفرت بھی کرتے تھے۔
بابا خیر بخش مری ایک ایسے سیاسی صوفی تھے جو ناکبھی جھکے نہ رکے نہ ٹوٹے اور نہ کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے، ایسی مستقل مزاجی تو سنگلاخ پہاڑوں میں بھی نہیں۔
تجزیہ نگار وسعت اللّٰہ خان بابا خیر بخش مری کے مطالق لکھتے ہیں کہ اگر بلوچوں کی تاریخ ، مزاحمت اور قوم پرستی کو ایک ساتھ گوندا جائِے تو اس مواد سے جو شخصیت ابھرے گی وہ خیر بخش مری کے سوائِے شاید کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
بابا خیر بخش مری نے اپنی زندگی وطن کی آزادی کی جدوجہد اور بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیتے ہوئِے گزاری، اس نے اپنی طویل جدوجہد میں بلوچوں کو منزل کی راہ دیکھا کر انہیں ایک منظم تحریک دی۔ یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ اُسے ایک عظیم اور کامیاب رہنما ہی سرانجام دے سکتا ہے۔