تربت یونیورسٹی: مسائل کا حل کے بجائے فرار کا راستہ

تربت یونیورسٹی: مسائل کا حل کے بجائے فرار کا راستہ

ولی بلوچ

تربت یونیورسٹی کے طلبہ ایک عرصے سے پُرامن احتجاج کے ذریعے اپنے جائز اور جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیشہ ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے سخت اقدامات اٹھانے کو ترجیح دی ہے۔ حال ہی میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) نے یونیورسٹی میں کتابی میلہ منعقد کرنے کے لیے باقاعدہ درخواست جمع کروائی۔ لیکن جب طلبہ کتابیں لے کر یونیورسٹی میں داخل ہونے لگے تو سیکیورٹی نے انہیں گیٹ پر روک لیا اور کتابیں اندر لے جانے کی اجازت نہیں دی۔

اس غیر منصفانہ رویے کے خلاف بساک کے طلبہ سمیت دیگر طلبہ نے احتجاجاً یونیورسٹی کے مین گیٹ کو بند کرکے سڑک پر ہی کتابوں کا اسٹال لگا دیا۔ بعدازاں، اگرچہ انہیں کتابوں سمیت اندر جانے دیا گیا، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس واقعے کو جواز بنا کر اس عمل میں شامل تین طلبہ پر 15، 15 ہزار اور چوتھے طالب علم پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرکے طالب علم کی ہاسٹل الاٹمنٹ بھی منسوخ کر دی گئی۔

یہ واقعہ صرف ایک مثال ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے ساتھ کس طرح کا رویہ اپنا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی طلبہ پر غیر ضروری پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جیسے کہ لڑکوں کے ہاسٹل کا گیٹ شام 7 بجے بند کر دینا، طالبات کو وارڈن کی اجازت کے باوجود یونیورسٹی سے باہر جانے سے روکنا، اور تنظیمی سرگرمیوں پر ناجائز پابندیاں لگانا۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی میں تعلیمی سہولیات کی بھی شدید کمی ہے، خاص طور پر سائنسی لیبارٹریوں میں ضروری آلات اور کیمیکلز کی عدم موجودگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

یہ تمام مسائل طلبہ کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکے تھے، جس کے نتیجے میں انہوں نے پُرامن احتجاج کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے ایڈمن بلاک کے باہر دھرنا دیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو 24 گھنٹے کی مہلت دی کہ وہ ان کے مسائل حل کرے۔ لیکن 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود، انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات پر کوئی سنجیدہ توجہ نہ دی، جس کے بعد اگلے دن طلبہ نے ایڈمن بلاک بند کر دیا۔ اس کے ردعمل میں، یونیورسٹی انتظامیہ نے سخت رویہ اپنایا اور احتجاج میں شامل چار طلبہ کے خلاف کارروائی کی۔ تین طلبہ کو ایک سیمسٹر کے لیے معطل کر دیا گیا، جبکہ پانچویں طالب علم کا داخلہ مکمل طور پر منسوخ کر دیا گیا۔

یونیورسٹی ہمیشہ یہ بیانیہ اپناتی رہی ہے کہ احتجاج میں صرف چند طلبہ شامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی تعداد میں طلبہ نے اس میں حصہ لیا۔ اس کے باوجود، انتظامیہ نے کچھ طلبہ کے داخلے منسوخ کرنے اور انہیں ہاسٹل سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ حالیہ بیان میں، ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے، پوری یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے دانشمندانہ نہیں ہے۔ اگر یونیورسٹی کا مؤقف یہ ہے کہ صرف چند طلبہ احتجاج کر رہے ہیں، تو اس کا حل پورے تعلیمی ادارے کو بند کرنا نہیں ہو سکتا۔ اس فیصلے سے ہزاروں طلبہ کی تعلیم متاثر ہوگی، اور یونیورسٹی کا اپنا تعلیمی ماحول بھی خراب ہوگا۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے حالیہ بیان میں ‘ایڈمن بلاک پر قبضہ’ جیسے سخت الفاظ استعمال کیے گئے، جو عموماً شدید کارروائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتظامیہ احتجاج کو دبانے کے لیے پولیس، ایف سی یا دیگر فورسز کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک نہایت خطرناک قدم ہوگا، جو طلبہ کے آئینی اور جمہوری حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔

طلبہ کو انتظامیہ پر اعتماد نہ ہونے اور ایڈمن بلاک بند کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چند دن قبل جب وہ احتجاج کر رہے تھے، تو انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ مگر 24 گھنٹے بعد جب وہ اپنے مطالبات لے کر ایڈمن بلاک پہنچے، تو ان پر ‘ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی’ کے جھوٹے الزامات لگا دیے گئے اور معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ اسی وجہ سے جب اس بار وائس چانسلر نے طلبہ کو یقین دلانے کی کوشش کی، تو انہوں نے اس پر بھروسہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی کئی بار دھوکہ کھا چکے ہیں، اس لیے اس بار انتظامیہ کی یقین دہانی پر یقین نہیں کر سکتے۔

یہ پورا معاملہ واضح کرتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ اگر واقعی یونیورسٹی طلبہ کی فلاح و بہبود چاہتی ہے، تو اسے دھمکیوں اور بندش جیسے فیصلوں کے بجائے کھلے دل سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں، سخت فیصلے لینے سے نہیں۔

اگر یونیورسٹی نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اور سخت فیصلوں کے ذریعے طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش جاری رکھی، تو اس سے نہ صرف طلبہ کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ پیدا ہوگی بلکہ یونیورسٹی کا مجموعی تعلیمی ماحول بھی شدید متاثر ہوگا، جس کا نقصان خود یونیورسٹی کی ساکھ کو پہنچے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تربت یونیورسٹی واقعی ایک تعلیمی ادارہ بن کر کام کرے گی، یا ایک ایسی جگہ رہے گی جہاں طلبہ کے حقوق کو دبایا جاتا ہے؟

Share To

About Admin

Baloch Students Action Committee is a Students political organization that aims to work for the betterment of education, promote literacy and politicize the youth in Balochistan. Struggle For Knowledge and Unity

Check Also

ادیب، ادب و آزاتی

ادیب، ادب و آزاتی نوشت:  ژاں پال سارتر جاچ: جعفر قمبرانی ژاں پال سارتر فرانس …