بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے

ارشد دوست

انسانی سماج میں سیاست کی ابتدا معجزاتی طور پر نہیں بلکہ عقل و دانش کی ارتقاء سے وجود میں آئی ہے، سیاست کا ظہور اُن پسماندہ طبقات نے جنم دی ہے جو سماج کی جبر تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور وہی مجبور طبقے نے اپنی آنے والے  خوشحال کل کیلئے سْیاست کو ایک عبادت کے طور پر چنا اور اندھیروں سے لڑنے کا آغاز کیا کیونکہ ہمارے ہاں ایک قول مشہور ہے “لڑتے وہی ہیں جن کو لڑنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔” اور سیاست وہ اجتماعی سوچ ہے جس سے بڑی سے بڑی طاقت کو زیر  کیا جاسکتا ہے۔ بساک ایسی ارتقاء کی ایک واضع مثال ہے اور ہم نے سیاست کو اس لئے چنا کیونکہ ہم اندھیرنگری کے مسافر تھے اور ابھی تک ہیں، بساک وہ شعوری دانشگاہ ہے جس سے ہماری نسلوں کو عبادت کا سبق سکھایا جاسکتا ہے وہ سبق جو ہماری تاریخ کے دریچوں کو زندہ رکھے، وہ عبادت جس سے خیانت لعنت کے مترادف ٹھرتا ہے۔

بساک کا چوتھا مرکزی کونسل سیشن یقیناً وہ کامیاب انقلابی و علمی سفر ہے جو بہت کٹھن اور نازک حالات سے گزرتے ہوئے یہاں تک آئی ہے۔ یہ سفر نوجوانوں کی انتھک کوشش اور محنتوں کا ثمر ہے جو کہ   پورے قوم کیلئے ایک مستقل اور مثالی ادارہ  کی طرح قائم ہے۔ سیاست قوموں کیلئے فرائض انجام دینے کا زریعہ نہیں بلکہ ایک ہدف کو واضع اہداف تک لے جانے کا نام ہے اور ہماری یعنی بساک کا ہدف ایک شعوری و علمی نسل کو پیدا کرنے اور ایسے مختلف نشیب و فراز سے گزار کر ایک طاقتور باعلم قوم بنانا ہے۔ کیونکہ آج کی اکیسوی صدی میں قومیں بہادری کے چرچے اور لفاظی باتوں سے نہیں بلکہ مسلسل علمی میدانوں میں عمل کرنے سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہم نے ایسی عمل کا راستہ چنا ہے جہاں نوجوان طبقے کو یہ واضع کر رہے ہیں کہ عمل طاقت کو جنم دیتی ہے اور طاقت آپ کو دنیا کی  تاریخ و دوڈ میں ایک زندہ قوم کی طرح یاد رکھتا ہے۔

آج بساک اپنے نصف دہائی کا عرصہ طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے، آگے بڑھنا یقیناََ مسرت بھری بات ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُس کا ادارہ آگے بڑھے لیکن کیا آگے بڑھنا کامیابی تصور کیا جاسکتا ہے؟ یقیناََ کیا جاسکتاہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صرف ایک ریس کیلئے دوڑ نہیں رہے ہیں بلکہ ہم کامیابی کو پانے کیلئے چڑھ دوڑ کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ہماری کامیابی ہماری منزل ہے جس کیلئے ہم نے مختلف طریقوں سے قربانیاں دی ہیں اور دیتے آ رہے ہیں۔ بساک نے سیاسی میدان میں زندہ مثالیں قائم کی ہے، بلوچ قوم کا وہ سماج جو خوف کے سائے میں جی رہا تھا، سیاست اُس کیلئے ایک بد نما گالی کی طرح تھا، قربانی دینے کو وہ فضول سمجھتا تھا، یہی قوم کے کچھ نوجوان نے رحتِ سفر باندھ کے ایسی اندھیروں سے جکھڑی ہوئی سماج کو جگھانے کی زمہ داری لی اور اپنی  زمہ داری نبھاتے رہے۔ آج سات سال بعد ہم اپنی واضع اہداف حاصل کرنے میں محوسفر ہیں جو ہماری خواہش تھی۔ آج ہمارا نوجوان طبقہ اس خطے کی باشعور نوجوان ہیں کیونکہ یہ داد ہماری اُس عزم کو جاتی ہے کہ ہم نے ہار نہیں مانا اور جدوجہد کرتے رہے۔  آج یہ نوجوان اپنے آپ کو ایک خوش قسمت نوجوان تصور کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ایسی طلباء سیاست کا مرحون منت ہے جس کیلئے بساک نے ہر جبر و ناانصافی اور تعلیمی پسماندگی سے لڑ کر نوجوانوں کو ایک امید دی ہے۔

ہماری امید اس قوم کی امید یہی بساک ہے جس نے رہنما سے لیکر ایک کارکن تک، ڈاکٹر سے لے کر استاد تک، نوجوانوں سے لے کر بچوں تک سب کو یہ احساس دلایا کہ آج کی سیاسی تقاضے ایک مطالعاتی سرکل میں بیٹھ کر لیکچر دینا نہیں بلکہ اپنی سماج کے ہر اُس گندگی کو صاف کرنا ہے جس کا ہمارا سماج دہائیوں سے شکار ہے۔ بساک شعور کا درسگاہ اسلئے ہے کہ اس نے ایک شعوری نسل جنم دی ہے اور وہ اس ادارے کی پیدہ کردہ طبقے ہیں کیونکہ وہ ادارہ اگر عملی طور پر کیڈرز جنم دیتے ہیں تو اُس ادارے کی نظریے کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ یہ ادارہ جیت کی اُس بلند چٹان پرچڑھ چکا ہے جس کو گرانا یا کہ ختم کرنا ایک بے معنی خواب ہے کیونکہ کہ شعور کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور شعور سے لڑ کر بھی لڑائی جیتا نہیں جا سکتا، اس لئے ہم نے عمل کو اپنا طاقت سمجھا اور علم حوالے سے طاقت پانے کیلئے عمل کرتے آرہے ہیں۔

بساک سے ایک کارکن بہت کچھ سیکھ سکھتا ہے کیونکہ ادارہ سیکھانے کی وہ اعلی جامعہ ہے جس کا ہر ورکر ایک خالص شعور یافتہ طالب علم ہوتاہے  جس کے پاس  بظاہر ڈگری تو نہیں ہوتی لیکن علم کی وہ کنجی ضرور ہوتی ہے جو کسی بھی پی ایچ ڈی ہولڈر سے کم نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان جو اس ملک کے صحافتی حلقوں میں ایک باشعور نوجوان کے طور پر سمجھے جاتے ہیں اس شعور کے پیچھے انہی اداروں کی محنت ہے جن کی وجہ سے  آج ہماری قوم جہالت سے نکل کر ایک شعوری قوم مانا جاتا ہے اور یہ ہمارے لئے کسی بھی بڑی کامیابی سے کم نہیں ہے۔  ہمارا یہ سفر یہاں تک نہیں رکے گا  بلکہ ہم اس مسلسل عمل کے فلسفے کو اس کی آخری چوٹی سے پار کرکے اندھیروں کو روشنی میں بدل کر ، جہالت کو شعور میں اور سیاست کو خالص عبادت میں تبدیل کرکے ارتقائی مراحلہ سے گزرتے ہوئے سماجی و سیاسی انقلاب تک روشنی پھیلاتے رہیں گیں۔ بساک بذات خود ایک روشنی ہے  جس کی منّور کردہ چمک نے ہماری قوم اور نوجوانوں کو ایک ایسی پلیٹ فارم مہیا کیا جو کہ علم و شعور، محنت اور خود داری کی علامت ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ قوم جن کے پاس ایسے ادارے ہوں کیونکہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب کامیاب ہوئے ان کے پیچھے مظبوط اور منظم ادارے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بھی خوش قسمت مانتے ہیں کہ ہمیں بساک جیسی ایک مظبوط ادارہ میسر ہے جو کہ ایک امید کی مانند ایک صبح کی نوید ہے۔ بساک کا ئہ چوتھا مرکزی کونسل سیشن امید کی وہ کرن ہے جس سے خطے میں نوجوانوں کیلئے  ایک نئے باب کا آغاز ہوگا اور یہ بلوچ طلباء سیاست میں ایک صبح آفتاب کی ابتدا ہوگی۔

Share To